امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران امریکا سے براہ راست مذاکرات کا خواہاں ہے، لیکن یورپی ممالک سے نہیں۔ نیو جرسی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ مذاکرات سے پہلے سیز فائر چاہتے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم ہو سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکی انٹیلی جنس اداروں کی معلومات درست نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران ایٹمی طاقت بننے کے قریب پہنچ چکا تھا، اور اگر امریکی اثاثوں پر حملہ ہوا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
ایرانی ردعمل اور سفارتی موقف
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ حملے کے خطرے میں مذاکرات ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اسرائیل کی جارحیت میں پہلے دن سے شامل ہے اور ایران کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور امریکی حکمت عملی
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ امن کے داعی رہے ہیں، لیکن بعض اوقات امن قائم رکھنے کے لیے سخت فیصلے لینا پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران پر حملے کے فیصلے میں انہیں زیادہ سے زیادہ دو ہفتے لگیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران میں زمینی افواج بھیجنا آخری آپشن ہوگا۔ ان کے مطابق، اسرائیل کے پاس ایران کی فورڈو جیسی زیر زمین جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں، صرف جزوی نقصان ہی پہنچا سکتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے ساتھ تجارتی بات چیت
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکا بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں امن اور ترقی کے لیے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں
0 تبصرے