Type Here to Get Search Results !

Bottom Ad

امریکہ کا ایران میں تین ایٹمی مراکز پر حملہ، خطے میں کشیدگی میں شدید اضافہ

امریکہ کا ایران میں تین ایٹمی مراکز پر حملہ، خطے میں کشیدگی میں شدید اضافہ

امریکی فوج نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر فضائی حملے کیے ہیں، جو دونوں ممالک کی جانب سے تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کی طویل کوششوں میں ایک اہم اور ڈرامائی پیش رفت ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز "ٹروتھ سوشل" پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا، "ہم نے ایران کے تین ایٹمی مراکز، فورڈو، ناتانز اور اصفہان پر بہت کامیاب حملہ مکمل کیا ہے۔ تمام طیارے اب ایران کی فضائی حدود سے باہر ہیں۔ فورڈو پر مکمل بمباری کی گئی۔ تمام طیارے بحفاظت واپس آ رہے ہیں۔ ہماری عظیم امریکی افواج کو مبارکباد۔ دنیا میں ایسی کوئی اور فوج نہیں جو یہ کر سکتی ہو۔ اب وقت ہے امن کا!"

ہفتے کی شب صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے قوم سے خطاب کیا جس میں نائب صدر وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ بھی موجود تھے۔

صدر ٹرمپ نے کہا، "ہمارا مقصد ایران کی ایٹمی افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنا اور ایٹمی خطرے کو روکنا تھا۔ آج رات میں دنیا کو یہ اطلاع دیتا ہوں کہ یہ حملے مکمل طور پر کامیاب رہے ہیں۔ ایران کی اہم ایٹمی تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں۔"

صدر نے مزید کہا کہ وہ مزید کارروائی کی خواہش نہیں رکھتے، لیکن اگر ایران نے رویہ نہ بدلا تو مزید اہداف پر کارروائی کی جائے گی۔ "اگر امن جلد نہ آیا تو ہم دیگر اہداف کو بھی پوری مہارت، رفتار اور درستگی سے نشانہ بنائیں گے۔"

انہوں نے بتایا کہ مزید تفصیلات اتوار کی صبح 8 بجے پینٹاگون کی پریس کانفرنس میں دی جائیں گی۔

ایران پر حملہ

یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی میں براہ راست فوجی کارروائی کی ہے۔ حملے میں فورڈو کی محفوظ ایٹمی تنصیب کو نشانہ بنایا گیا، جو تہران سے 100 میل جنوب میں ایک پہاڑ کے نیچے تقریباً 300 فٹ گہرائی میں واقع ہے۔

یہ تنصیب اتنی محفوظ ہے کہ صرف امریکہ کا مخصوص B-2 اسٹیلتھ بمبار ہی وہاں GBU-57 MOP (Massive Ordnance Penetrator) بم پہنچا سکتا ہے۔ یہ 30,000 پاؤنڈ وزنی بم زیر زمین تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق فوجی قیادت کو اس کارروائی سے پہلے مطلع کیا گیا، تاہم یہ واضح نہیں کہ ریپبلکن قیادت کو کب مطلع کیا گیا۔

سیاسی ردعمل

ڈیموکریٹس نے اس کارروائی پر شدید تنقید کی ہے۔ ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے سینئر رکن جم ہائمز نے بیان دیا: "کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران پر براہ راست حملہ آئینی خلاف ورزی ہے۔ جنگ کا اختیار صرف کانگریس کو حاصل ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "اس مرحلے پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ کارروائی اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئی ہے یا نہیں۔"

نئی غیر یقینی صورتحال

ٹرمپ نے ہمیشہ کہا تھا کہ وہ امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی جنگوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں، مگر ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لیے کارروائی کو ضروری قرار دیا۔

انہوں نے پہلے ایران سے نیا ایٹمی معاہدہ کرنے کی کوشش کی، لیکن 2018 میں اوباما دور کے معاہدے کو ختم کر دیا۔ اسرائیل کے حملوں کے بعد انہوں نے ایران کو "بے شرط ہتھیار ڈالنے" کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی لوکیشن معلوم ہے، اور وہ "آسان ہدف" ہیں، لیکن فی الحال حملہ نہیں کیا جائے گا۔

خامنہ ای نے جواب میں خبردار کیا کہ امریکہ کے لیے فوجی مداخلت "100 فیصد نقصان دہ" ہوگی اور اس کا نقصان ناقابل تلافی ہوگا۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ

ایران نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں درجنوں میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے زیادہ تر حملوں کو ناکام بنایا، لیکن کچھ کامیاب بھی رہے۔ درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کے لیے بھی خطرہ ہے۔

امریکی انٹیلیجنس کے مطابق ایران نے 2003 میں اپنا ایٹمی ہتھیاروں کا پروگرام روک دیا تھا، لیکن ٹرمپ نے اس بیان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایران "بہت قریب" ہے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Top Post Ad

Below Post Ad

Bottom Ad